مہتمم دارالعلوم دیوبند کی وفات پر:

نجم تاباں کا غروب

از: مولانا خورشید حسن قاسمی

خادم دارالعلوم دیوبند

 

 

یوں تو ہر ایک انسان کو جہان فانی سے دارالبقاء کی طرف جانا ہے جس کا ایک وقت مقرر ہے۔ لیکن کچھ حضرات ایسے ہوتے ہیں جن کی وفات کے بعد اُن کی لافانی یادیں اورملت کیلئے ان کی خدمات ہمیشہ ہمیشہ یاد رہتی ہیں اور ان کی لافانی یادیں تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ بن جاتی ہیں۔

ایسا ہی المناک حادثہ، عالم اسلام کی ایک برگزیدہ شخصیت حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کی وفات حسر آیات کی صورت میں پیش آیا۔

حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ کا خانوادہ اعیان بجنور میں شمار ہوتا ہے جن کی ذاتی شرافت، تواضع، اخلاق عالیہ، مہمان نوازی، صلہٴ رحمی، زبان زد خاص وعام ہے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کے والد ماجد مولانا مشیت اللہ صاحب بجنوری رحمة اللہ علیہ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں ہے۔

حضرت امیرالہند رحمة اللہ علیہ کے والد ماجد مولانا مشیت اللہ بجنوری رحمة اللہ علیہ نے بھی طویل عرصہ تک رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند کی بے لوث خدمات انجام دیں اس طرح آپ کاخانوادہ تقریباً ایک صدی سے دارالعلوم دیوبند کی خدمات انجام دیتا آرہا ہے۔

حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کا راقم الحروف سے غیرمعمولی تعلق تھا راقم الحروف روئیت ہلال کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے پابندی سے ہر ایک ماہ خدمت اقدس میں چاند ہونے یا نہ ہونے کی اطلاع جس وقت دینے کیلئے حاضر ہوتا توغیر معمولی شفقت فرماتے اور کافی وقت خاندان کے بزرگوں اور راقم الحروف کے آبائی محلہ، محلہ بڑے بھائیان میں زمانہ طالب علمی میں وقت گزارنے اور خاص طور پر شاعر انقلاب علامہ انور صابری رحمة اللہ علیہ اور جد المکرم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری کا اکثر تذکرہ فرماتے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ راقم الحروف کے جد المکرم مولانا نبیہ حسن صاحب رحمة اللہ علیہ (جوکہ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے خاص تلمیذ تھے) کے خاص تلامذہ میں سے تھے اور فرماتے کہ تفسیرجلالین شریف میں نے آپ کے دادا سے پڑھی ہے ۱۹۹۸ء میں جس وقت برادر مکرم مولانا شاہد حسن صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ کے انتقال پر تعزیت کیلئے محلہ بڑے بھائیان تشریف لے گئے تو حضرت رحمة اللہ علیہ نے مولانا خورشید عالم صاحب دامت برکاتہم محدث وقف دارالعلوم دیوبند اور دیگر اہل محلہ کی موجودگی میں ارشاد فرمایا:

’’میں جس وقت تفسیر جلالین شریف کا امتحان دینے کیلئے مولانا نبیہ حسن صاحب رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت موصوف کتابِ مذکورہ کا امتحان لینے کے بجائے میرے لئے مکان کے اندر سے بریانی اور زردہ کی پلیٹ لے کر تشریف لائے اور فرمایاکہ بھائی پہلے یہ کھاؤ اورامتحان بعد میں دینا‘‘۔

حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک واقعہ اور بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ مشکوٰة شریف کے درس میں حضرت الاستاذ مولانا نبیہ حسن صاحب رحمة اللہ علیہ کو درسی تقریر میں لکنت طاری ہوگئی اور درس مشکوٰة آگے نہ بڑھ سکا۔

حضرت الاستاذ تمام طلبہ کو درس گاہ میں اسی طرح سے بیٹھے رہنے کا ارشاد فرماکر خود کسی جگہ تشریف لے گئے طلباء نے خاموشی سے دیکھا کہ آپ رحمة اللہ علیہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ کے مزار مبارک پر چادر اوڑھ کر مراقب ہیں کچھ دیر کے بعد مزار مبارک کے مراقبہ سے فارغ ہوکر درسگاہ تشریف لاکر درس جاری فرمایا اور ارشاد فرمایاکہ: حضرت الاستاذ یعنی شیخ الہند رحمة اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں اس طرح فرمایا ہے۔

بہرحال حضرت رحمة اللہ علیہ کا راقم الحروف کے خانوادہ سے خاص تعلق تھا۔ رمضان المبارک سے قبل جس وقت عم المکرم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ہندوستان تشریف آوری کی حضرت رحمة اللہ علیہ کو اطلاع ملی تو دو مرتبہ احقر کو بلاکر فرمایا، مفتی تقی صاحب کو دیوبند تشریف لانے کے بعد دارالعلوم تشریف لانے کیلئے آپ تمام رشتہ داروں کو ضرور کوشش کرنی چاہئے اور ہم لوگ بھی اپنے طور سے دعوت دے رہے ہیں۔ چنانچہ جس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب حضرت کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ کی مسرت لائق دید تھی۔

بہرحال حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ ہمیشہ خانگی مسائل میں بھی احقر کے سرپرست تھے اور ہمیشہ ہی مربیانہ شفقت فرماتے، درحقیقت حضرت کی وفات حسرت آیات صرف برادرِ مکرم جناب مولانا انوارالرحمن اور ان کے اہل خانہ ہی کیلئے نہیں بلکہ عالم اسلام کیلئے ایک عظیم ناقابل تلافی نقصان ہے۔ خداوندقدوس حضرت رحمة اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔

٭٭٭

---------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1-2 ‏، جلد: 95 ‏، صفر‏، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری‏، فروری 2011ء